کیا کوّےجانوروں میں سب سے زیادہ چالاک اورذہین ہو تے ہیں؟
کوّوں کو عرصۂ دراز سے چالاک سمجھا جاتا رہا ہے۔ مگر ممکن ہے کہ ان میں ہماری دانست سے کہیں زیادہ ذہانت ہو۔
کوّے کا نام بیٹی تھا۔ اور اسے شہرت کے آسمان پر پہنچنا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدان اسے حیرت سے تک رہے تھے جب اس نے پنجرے کے اندر لوہے کی ایک تار اٹھائی، پھر اس کے ایک سرے کو کسی چیز پر رکھ کر موڑا۔
یہ تار اب ایک ہُک نما اوزار بن چکی تھی جس کا ایک سرا مچھلی پکڑنے والے کانٹے کی طرح مڑا ہوا تھا۔ اس اوزار کی مدد سے بیٹی نے پلاسٹک کی ایک ٹیوب میں سے ایک بکس کو، جس میں گوشت رکھا ہوا تھا، اوپر کی جانب کھسکایا۔ پھر اس نے مزے سے اپنا لنچ کیا۔
سنہ 2002 میں بیٹی کے یہ کرتب تفریح کا ایک ذریعہ تھے۔
اس کی یہ حرکت ہماری ذہنی شعبدبازی سے قریب تھی۔ اخبارات نے اسے حیرت انگیز طور پر سیانا کوا قرار دیا۔
کئی برس بعد تحقیق سے پتا چلا کہ نیو کیلیڈونین نسل کے کوے عام طور پر اوزاروں کو موڑ توڑ کر اپنا کام نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔
جنگل میں تو وہ ہر وقت ایسا کرتے ہیں۔ مگر بیٹی کو دیکھنے والوں کو ایسا لگا جیسے اسے یہ بات ایک دم سے سجھائی گئی ہے۔
نیو کیلیڈونین کووں نے یہ طریقہ جنگل میں سیکھا ہے جہاں وہ نرم ٹہنیوں کو موڑ کر دراڑوں اور جھِریوں میں سے خوراک نکالتے ہیں۔
یہ کرتب اس کی ذہانت سے زیادہ اس کی فطرت پر دلالت کرتا تھا۔
نیو کیلیڈونین کوے ٹہنیوں اور تنکوں کی مدد سے درخت کے تنوں اور شاخوں میں چھپے کیڑے مکوڑے نکال کر کھاتے ہیں
سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے کرِسچئن رٹز کہتے ہیں ’میں اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کمتر نہیں سمجھتا۔ کم سے کم یہ ہمیں بیٹی کے طور طریقوں کا از سر نو جائزہ لینے پر ضرور مجبور کرتا ہے۔‘
نیو کیلیڈونین کوے پرندوں کے کوروِڈ نامی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مینا، نیل کنٹھ، پہاڑی کوے وغیرہ شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں اس طرح کے پرندوں کے دماغ کا گہرا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سے بعض پرندوں نے غیر معمولی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مگر ذہانت ایک گنجلک موضوع ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ یہ ہے کیا؟ اور یہ کیوں ارتقاپذیر ہوا؟
کوروِڈ خاندان سے تعلق رکھنے والے پرندے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔
ذہانت کا مسکن دماغ ہے۔ پرائمیٹس یعنی ذہین جانداروں کے، جن میں انسان، بندر اور لنگور وغیرہ شامل ہیں، دماغ میں ایک مخصوص حصہ ہوتا ہے جسے نیوکارٹکس کہتے ہیں۔
اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ اعلٰی ذہانت کے حصول کو ممکن بناتا ہے۔ کوروِڈز کے دماغ میں یہ حصہ نہیں پایا جاتا۔ تاہم اس کی جگہ ان کے دماغ میں نیورون یا دماغی خلیوں کے گچھے پائے جاتے ہیں جو ایسی ہی ذہنی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ایک مخصوص قسم کے دماغ سے فرق نہیں پڑتا۔
کوروِڈز اور پرائمیٹس دونوں ہی کسی مشکل کے حل کی بنیادی صلاحیت اور نئی معلومات اور تجربات کی صورت میں کسی تبدیلی کے ساتھ خود کو ڈھالنے کی اہلیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ ایسا ارتقائی عمل ہے جس کے ذریعے مختلف النوع جانور اپنے اندر ایک جیسی خصوصیات پیدا کر لیتے ہیں۔
انسانوں کے لیے کوروِڈز کے اس طرزِ عمل کا مشاہدہ آسان ہے۔ مثلاً ان لوگوں کی شناخت جو پہلے کبھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوئے ہوں یا پھر رابطے یا بات پہنچانے کے لیے اشاروں کا استعمال۔ ہم بھی ان ہی اہلیتوں پر انحصار کرتے ہیں۔
رٹز کو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔
بعض پرندے، مثلاً نیو کیلیڈونین کوے جن پر وہ تحقیق کر رہے ہیں، غیر معمولی کام کر سکتے ہیں۔
ایک حالیہ مقالے میں جو انھوں نے اپنے شریک محققین کے ساتھ مل کر شائع کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ نیو کیلیڈونین کوے اپنے مڑے ہوئے اوزار بنانے کے لیے ایک مخصوص پودے کا باریک تنا چنتے ہیں۔
تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے مطلوبہ تنا اس وقت بھی ڈھونڈ نکالا تھا جب اسے دوسرے پودوں سے ڈھانپ کر رکھا گیا تھا۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ کوے ایسا سامان ڈھونڈ رہے تھے جن کے بارے میں انھیں معلوم تھا کہ یہ اوزار بنانے کے کام آ سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ کیل ٹھوکنے کے لیے ہتھوڑی کے بجائے کوئی دوسرا اوزار ہرگز استعمال نہیں کریں گے۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ بعض جانور دوسرے سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور ذہانت کے درخت پر انسان سب سے اوپر بیٹھا ہے۔ یقیناً انسان کے زندہ رہنے کے لیے ذہانت پر اس کا سب سے زیادہ انحصار ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر ذہنی مشق میں سب سے بہتر ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈکوٹا میککوئے کہتے ہیں کہ بن مانس کی قلیل مدتی یادداشت انسانوں سے بہتر ہوتی ہے۔
نیو کیلیڈونین انسانوں کے علاوہ اوزار استعمال کرنے والے واحد جاندار نہیں ہیں۔ یہ صلاحیت رکھنے والے جانوروں کی فہرست میں طوطے، چمپینزی، مگرمچھ اور کیکڑے بھی شامل ہیں۔
ادراک کسی جاندار کو اس کے اپنے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے بہت سے کام کرنے میں مدد کر سکتا ہے لیکن کئی جانور اس کے بغیر بھی کام چلا لیتے ہیں۔ جہاں کوے مشکل جگہوں میں پڑی ہوئی خوراک تک رسائی کے لیے ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں وہیں زرافہ اپنی لمبی گردن سے مدد حاصل کرلیتا ہے۔
’چالاک‘ جانور کئی بار اپنی ضرورت سے بڑھ کر بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بی بی سی ٹی وی سیریز ’انسائئڈ دی اینیمل مائنڈ‘
( Inside the Animal Mind)
میں 007 نامی ایک نیو کیلیڈونین ایک ایسی گتھی سلجھاتا ہے جس کے آٹھ مختلف مراحل ہیں۔
007 کے اس کارنامے کے سامنے بیٹی کا مظاہرہ جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے عام سا لگتا ہے۔ ایک پرندے نے ایسی صورتحال کا مقابلہ کیا جس کا اسے جنگل میں کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہو گا۔
یہ بات درست ہے کہ 007 نے اس گتھی کے سلجھانے میں شامل مختلف مراحل الگ الگ سیکھے تھے لیکن انھیں سلسلہ وار استعمال کرنے ایک چیلنج تھا۔ اس اشارہ ملتے ہیں کہ پرندے کسی حد تک آنے والے وقت کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔
ممکنہ طور پر 007 اور اس جیسے کوے اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں بس یہ ہے کہ ہم نے ابھی انہیں آزمایا نہیں ہے۔
رٹز کے طرح مککوئے نے بھی نیو کیلیڈونین کووں پر تجربات کیے۔
ایک رپورٹ میں مککوئے اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ پرندوں کا موڈ اوزاروں کے استعمال سے کس طرح متاثر ہوتا ہے۔
نیو کیلیڈونین کووں کو پہلے یہ ٹریننگ دی گئی کہ میز کی ایک طرف پڑے ڈبے میں دوسری طرف پڑے ڈبے سے زیادہ گوشت ہے۔ اس کے بعد میز کے بیچ میں ایک ڈبہ رکھا گیا جس کے بارے میں کووں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس میں کتنا گوشت ہے۔
کوے جنھوں نے حال ہی میں اوزار استعمال کیے تھے وہ میز کے درمیان میں رکھے ڈبے کی طرف ان کووں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھے جنھوں نے اوزار استعمال نہیں کیے تھے۔
کوے ایسی مشکلات کا حل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں جن کا انھیں جنگل میں سامنا نہیں کرنا پڑتا
مککوئے نے کہا کہ اس سے اندازہ ہوا کہ اوزاروں کے استعمال نے کووں کو زیادہ پر امید بنا دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے یہ تو ثابت نھیں ہوتا کہ وہ کوے زیادہ خوش ہوئے ہوں گے لیکن اس سے اوزاروں کے استعمال اور توقعات کے پیدا ہونے میں ایک مثبت تعلق ضرور سامنے آتا ہے۔
مککوئے کے مطابق سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دلچسپ عمل ہے۔ اس سے وہ کام بھی ممکن ہو جاتے ہیں جو صرف زندہ رہنے کے لیے ضروری نہیں۔
مککوئے نے جن کووں پر کام کیا ان میں قدرتی طور پر تجسس کی حس تھی۔ وہ سائنسی آلات اٹھا کر اڑ جاتے ہیں۔ کم عمر پرندوں کو کھیلنے کا شوق ہے۔
انھوں نے کہا کہ انسان اس سے زیادہ مختلف تو نہیں۔
ہمارے بڑے دماغ ہیں جنہیں ہم ’کراسورڈ پزل‘ حل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اب اس کا بھی ارتقا کے عمل سے تو کوئی تعلق نہیں۔
نیو کیلیڈونین کووں کے بھی ہمارے اور دیگر ذہین جانداروں کی طرح موڈ اور یاداشت ہوتی ہے۔ حکمت عملیاں اور توقعات بھی۔ وہ الجھاؤ سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ سب ارتقا کے عمل کی وجہ سے ممکن ہوا۔
لیکن ذہانت زندگی کی طرح صرف ضرورت پوری نہیں کرتی۔ جانوروں کی ذہانت بہت سے دلچسپ مظاہر پیدا کرتی ہے۔ انسانوں کی زبان پہچاننے والے گوریلے، گتھیاں سلجھاتے کووے اور لطیفے سناتے طوطے۔
قدرت نوٹس لکھتی ہے اور جانوروں کا دماغ موسیقی پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ان کی حد صرف ان کا اپنا دماغ ہے۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box