Skip to main content

ARE PANGOLINS REALY DANGEROUS??



کورونا وائرس کی وجہ بننےوالا جانور پینگولین

کورونا وائرس کا پھیلاؤ ایک اتفاق ہے یا کسی بائیولوجیکل جنگ کا حصہ؟ یہ بات ابھی راز ہی ہے لیکن یہ وائرس دنیا بھر میں ایک دہشت کی علامت بن چکا ہے۔



دنیا میں اب تک ہزاروں لوگ اس وائرس کے سبب ہلاک ہو چکےہیں اور لاکھوں اس کی زد میں ہیں۔ لیکن شایدخوف و دہشت کی یہ فضاکرہءِ ارض پر موجود ایک  چھوٹے سے جانور چیونٹی خور یا پینگولین کے لیےزندگی کا پیغام لائے۔ تازہ خبروں کے مطابق سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار پینگولین کو قرار دیا ہے۔

چین کے متاثرہ شہر ووہان میں جس پہلے شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اس شخص کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کی منڈی واقع ہے۔ لہٰذا سائنسدانوں کی توجہ جانورں پر مرکوز ہوئی۔ پہلے سور اور پھر چمگادڑ کو اس وائرس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا مگر اب سائنسدان متفق ہیں کہ کورونا نامی وائرس پینگولین سے انسانوں میں منتقل  ہوا۔


چین میں سمگل کیے جانے والے پینگولیئن میں کووڈ۔19 نما وائرس کی تصدیق ہوئی جو کہ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔
ایک بین الاقوامی ٹیم نے کہا ہے کہ جنگلی جانوروں کی منڈی میں ان کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔عالمی سائنسی جریدے ’نیچر‘ کے تازہ شمارے میں شائع رپورٹ کے مطابق  پینگولین میں بھی یہ وائرس پایا جاتا ہے۔ پینگولین کے وائرس کا موازنہ جب کورونا وائرس سے کیا گیا تو دونوں میں 99 فیصد مشابہت پائی گئی۔


پینگولین اور دیگر جنگلی حیات جن میں کئی طرح کی چمگادڑیں بھی شامل ہیں اکثر گیلے بازاروں میں فروخت کی جاتی ہیں ( ایسے بازار جہاں زندہ جانوروں کو پانی میں رکھا جاتا ہے) جس سے ایک سے دوسرے جانور میں وائرس پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ تو ایسے بازاروں میں ہی جانوروں اور انسانوں میں وائرس پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
دنیا بھر میں پینگولین کی 8 اقسام پائی جاتی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر سے پینگولین کی 
  70  سے  80 فیصد آبادی غیر قانونی تجارت کے باعث  ختم ہوچکی ہے۔ اس کے مساکن ایشیا اور افریقہ کے براعظم ہیں۔ ایشیا میں پایا جانے والا پینگولین انڈین پینگولین کہلاتا ہے۔

پینگولین انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچرکی انڈینجرڈ جانداروں کی فہرست ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل ہے اور عالمی معاہدہ برائے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے شیڈول ون میں شامل ہے جس کے تحت پینگولین کی ہر طرح کی تجارت اور شکار ممنوع ہے۔ پاکستان بھی چونکہ اس معاہدے کی توثیق کرچکا ہے لہٰذا پاکستان میں بھی پینگولین کا شکار اور اس کی تجارت غیر قانونی ہے۔
جانوروں کو بنیادی طور پر ان کے سکیلز کیلیے
 اسمگل کیا جاتا ہے ، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ روایتی چینی طب (ٹی سی ایم) میں صحت کی مختلف حالتوں کا علاج کرتے ہیں ، اور ویتنام اور چین میں عیش و آرام کی خوراک کے طور پر۔ افریقہ میں ، پینگولن رسمی یا bushmeatروحانی مقاصد کے لئے
 کے طور پر فروخت ہوتی ہیں ، اور روایتی افریقی دوائی میں استعمال ہوتی ہیں۔


پاکستان میں پائی جانے والی نوع
                    (Manis crassicaudata)
انڈین پینگولین  کہلاتی ہے۔ یہ موٹی دُم والا پینگولن، سکیلز (pine cone)والا چیونٹی خور، اور دنیا کا واحد زندہ
   بھی کہلاتا ہے، کیونکہ کبھی کبھی دیکھنے میں یہ پائن
 (CONE)کےدرخت سے لٹکنے والی مخروط
  کی طرح نظر آتا ہے۔ہندوستانی پینگولن ایک تنہا ، شرمیلی ، سست حرکت پذیر ، رات کو جاگنےوالا جانور ہے۔ یہ سر سے دم تک تقریبا84تا122  سینٹی میٹر لمبےہوتےہیں ، دُم عام طور پر47-33 سینٹی میٹر (13–19 انچ) لمبی ہوتی ہے اور اس کا وزن 10–16 کلو گرام (22–35 پونڈ) ہوتا ہے۔ مادہ عموما نر سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ پینگوئن میں مخروط کی شکل کا سر ، چھوٹی ، گہری آنکھیں اور ایک لمبی چوہےجیسی ناک ہوتی ہے جس کی رنگت اس کی گلابی بھوری رنگت سے گہری ہوتی ہے۔پینگولن کے دانت نہیں ہیں ، لیکن ہاضمہ میں مدد کے لئے پیٹ میں مضبوط پٹھے ہیں۔ پینگولن کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے بڑے چھلکےہیں ، جو اس کے اوپری چہرے، پیٹ اور ٹانگوں کی اندرونی جلد کے علاوہ سارے جسم پر پائے جاتے ہیں۔ یہ حفاظتی سکیلزسخت اور کیراٹین سے بنے ہیں۔ اس میں مجموعی طور پر 160–200 سکیلز ہیں ، جن میں سے 40–46. دم پر واقع ہیں۔ سکیلز 6.5–7 سینٹی میٹر (2.6-22.8 انچ) لمبا ، 8.5 سینٹی میٹر (3.3 انچ) چوڑا ہے ، اور اس کا وزن 7-10 گرام (0.25-0055 اونس) ہے۔ یہ سکیلزاور اس کی کھال پینگولین کےکل وزن کا چوتھائی سے ایک تہائی حصہ ہوتا ہے


پینگولن واحد میمل (اپنے بچوں کو دودھ پلانے والا جانور) ہے جس کے جسم پرسکیلز ہوتے ہیں، جو اسے شکاری اور حملہ آور جانوروں سے بچاتے ہیں۔ یہ سکیلز اس کے
 پورے جسم پر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں پینگولین تقریباً ہر علاقے میں پایا جاتا ہے مگر اس کے اصل مسکن پوٹھوہار اور چکوال ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان میں بھی نظر آتا ہے۔

بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے مطابق اگرچہ پینگولین کی آبادی کے حوالے سے کوئی تحقیق موجود نہیں ہے مگر تقسیم سے قبل انگریزوں نے بڑی تعداد میں جنگلات کاٹ دیے تھے تو یہ جانور بلوچستان میں کوہِ سلیمان کی جانب ہجرت کرگیا تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق اب سندھ میں پاکستان کی کل آبادی کے بمشکل 5 فیصد ہی پینگولن باقی رہ گئے ہیں۔


پینگولن کو چیونٹی خور اور چکوال میں مقامی طور پر اسے ’سلہہ‘ کہا جاتا ہے۔ پینگولین ایک شرمیلا اور بے ضرر جانور ہے جو اکثر رات کے وقت ہی اپنے بل سے باہر نکلتا ہے۔ اس کے تیز ناخن اسے زمین کھودنے میں مدد دیتے ہیں۔ چھوٹے کیڑے مکوڑے اور دیمک اس کی خوراک ہیں۔ اس کی زبان لمبی ہوتی ہے جس سے کیڑے مکوڑے چپک جاتے ہیں۔

پینگولین کے بارےمیں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ جانور قبریں کھود کر مردے کھاتا ہےجو کہ غلط ہے۔ یہ گوشت خور جانور نہیں ہے۔ اس کی غذا چیونٹی، دیمک اور دیگر چھوٹے کیڑے مکوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قبرستانوں میں پرانے درختوں کے آس پاس نظر آتا ہے۔اس لیےلوگ اس جانور کو مردہ خور سمجھ کر ماردیتے ہیں۔


دنیا بھر میں اسلحے اور انسانی تجارت کے بعد تیسرے نمبر پر جنگلی جانوروں کی تجارت آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 2000ء سے لے کر 2019 تک 8 لاکھ سے زائد پینگولین عالمی سطح پر اسمگل کیے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ پینگولین کی تجارت 1820ء میں شروع ہوئی جب برطانیہ پر جارج سوئم کی حکمرانی تھی۔ انہیں ایک تقریب میں ایک کوٹ اور ہیٹ پیش کیے گئے تھے جو انڈین پینگولین کی کھال کے چھلکوں سے تیار کیا گیا تھا، لیکن خیال یہ ہے کہ یہ تجارت اس سے پہلے بھی جاری تھی۔ اس جانور کے بنیادی مساکن ایشیا اور افریقہ کے ممالک ہیں۔ایشیائی ممالک میں اس کی اسمگلنگ کا سبب اس کی کھال پر موجود چھلکے یا کھپرے اور اس کا خون ہیں جن کا ادویات میں استعمال عام ہے جبکہ دوسرا سبب اس کا گوشت ہے جسے دنیا بھر میں ایک ’لگژری فوڈ آئٹم‘ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف افریقہ کے کچھ ممالک میں ان دونوں وجوہات کے علاوہ اس جانور کا استعمال جادو ٹونے وغیرہ میں بھی کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ یہی ممالیہ اسمگل کیا جاتا ہے۔


پاکستان میں بھی جنگلی حیات کی خرید و فروخت میں سب سے زیادہ پینگولین کی غیر قانونی تجارت ہوتی ہے اور محتاط اندازوں کے مطابق اس معصوم جانور کی نسل کا 70 سے 80 فیصد خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اگر اس مسئلے کا سدباب نہیں کیا گیا تو یہ جانور پاکستان سے معدوم ہوسکتا ہے۔

قبرستانوں کے قریب تو لوگ اسے مارا ہی کرتے تھے مگر اس بے ضرر جانور پر ایک اور مصیبت تب ٹوٹی جب اس کے گوشت اور کھال پر موجود چھلکوں کی قیمت ڈالرز میں ملنے لگی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان سے بطور منیجر کنزرویشن وابستہ محمد وسیم کا پینگولین کے تحفظ اور ریسرچ کے حوالے سے طویل تجربہ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پینگولین کو پہلا خطرہ مقامی لوگوں سے تھا، یہ جانور قبرستانوں کے پرانے درختوں کی جڑوں میں کیڑے مکوڑے یا دیمک اور چیونٹیوں کی تلاش میں رہتا تھا لیکن لوگ اسے مردہ خور سمجھ کر ماردیتے۔ شکاریوں نے لوگوں کی اس غلط فہمی کو اور پختہ کردیا اور کہا کہ اسے ہمیں بیچ دو اور اپنے مردے بچاؤ۔ لوگوں کو تھوڑے بہت پیسے بھی ملنے لگے یوں اس کی نسل کشی میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پینگولین سے متعلق لوگوں میں معلومات اور شعور کی کمی بھی تھی۔ کچھ عرصے پہلے تک اکثر وائلڈ لائف اسٹاف کے سامنے بھی یہ خرید و فروخت ہوتی تھی مگر وہ کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کیا بلا ہے۔


وسیم کا کہنا ہے کہ 2009ء میں جب بچھوؤں اور چھپکلیوں کی تجارت بڑھی تو پینگولین کی مانگ اور قیمت میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف پینگولین ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے غیر قانونی کاموں میں زیادہ تر خانہ بدوش ملوث ہیں۔چھپکلیوں، بچھوؤں اور پینگولین کی اسمگلنگ کے حوالے سے مقامی سطح پر ان کا مضبوط نیٹ ورک ہوتا ۔

گوشت تو صرف چین میں بکتا ہے مگر اس کی کھال پر جو چھلکے یا کھپرے ہوتے ہیں اس کی طلب پوری دنیا میں ہی پائی جاتی ہے۔


ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک پینگولین 20 سے 25 ہزار روپے میں مل جاتا ہے جبکہ چین پہنچ کر یہ 10 لاکھ روپے کا ہوجاتا ہے جبکہ اس کی کھال پر موجود چھلکوں کی قیمت چین کی مارکیٹ میں 4 لاکھ مل جاتی ہے

سال 2019ء میں پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پینگولین کے 3 ٹن سکیلز پکڑےاس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر قانونی شکاریوں نے ہزاروں پینگولن ہلاک کرکے یہ سکیلز حاصل کیے ہوں گے۔ 3 ٹن کھپروں کا مطلب ہوا تقریباً 6 ہزار پاؤنڈ گوشت، یعنی 3 ہزار کلو گرام۔ اتنا وزن کہ جتنا ایک ایشیائی ہاتھی کا ہوتا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے پچھلے سال جنوری میں کچھوؤں اور پینگولین کا 2 ہزار کلو گوشت پکڑا تھا جسے اسمگلنگ کی غرض سے ذخیرہ کیا گیا تھا مگر بعدازاں وائلڈ لائف کے دفتر سے یہ قیمتی گوشت چُرا لیا گیا۔

پاکستان میں کراچی، لاہور، آزاد کشمیر میں بھنبر اور میرپور کے علاوہ چکوال، میانوالی اور اٹک اس کی خاص منڈیاں ہیں۔ پاکستان کی بلیک مارکیٹ میں ایسے کوئی بھی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکے کہ سالانہ بنیادوں پر کتنا گوشت چین اسمگل کیا جاتا ہے۔ اس کالے دھندے کی کڑیاں مقامی افراد سے مڈل مین اور پھر بین الاقوامی اسمگلروں تک پہنچتی ہیں۔

چین کی ایک تنظیم ’چائنا بائیوڈائیورسٹی کنزرویشن اینڈ گرین ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن‘ کے مطابق چین میں ایسی 200 ادویہ ساز کمپنیاں ہیں، جو اپنی مصنوعات میں پینگولین کی جلد کو استعمال کرتی ہیں۔ چین میں قانونی طور پر ہر سال ان کمپنیوں کو 19 ٹن پینگولین (تقریباً 73 ہزار پینگولین) کی جِلد استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

اکثر افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان چین معاشی راہداری کے منصوبوں کے تحت خطے میں جب سے چینی عمل دخل بڑھا ہے تب سے پینگولین کی تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔


کورونا وائرس کا پینگولین سے تعلق نکل آنے پر شاید لوگ خوف زدہ ہوکر اس سے دُور رہیں اور یوں اس معصوم جانور کی نسل کشی کم ہوجائے یا رُک جائے۔

Comments

Popular posts from this blog

which scientists born on June 4??

Scientists born on June 4 Robert F. Furchgott Born June 4, 1916; Died May 19, 2009 at the age of 92. Robert Francis Furchgitt was an American pharmacologist who shared the 1998 Nobel Prize in Physiology or Medicine (along with Louis J. Ignacio and Fred Murad) for his discovery that nitric oxide (NO) acts as a signaling molecule in the cardiovascular system. Is. Their joint work revealed a brand new mechanism by which the blood vessels in the body relax and dilate. Nitric oxide (NO), produced by a cell, works by penetrating membranes and regulating the function of other cells. Nerves and hormones are known as signal carriers, but this discovery was a completely new signaling principle in the biological system. Sir Christopher Cockerell Born June 4, 1910 Died June 1, 1999 at the age of 88 The English inventor of the hovercraft. He was an electronics engineer at the Marconi Company (1935-50) where he worked on aircraft carriers and radar. Then he started a boat rental business. ...

6 Misconceptions About Coronavirus Treatment

  6 Misconceptions About Coronavirus Treatment Coronavirus is spreading very fast in different countries of the world and so far no proven cure has been found. Unfortunately, coronavirus treatment continues to be treated online. Different people are giving different suggestions for the treatment of coronavirus. In an Africa country a religious leader asked his followers to drink Dettol for coronavirus treatment. As a result about 80 people died. Some tips are useless but harmless but some are very dangerous.  Lets look what science says about some common misconceptions. 1-Garlic A number of posts have been shared on the social networking site Facebook suggesting that eating garlic can help prevent infections. The World Health Organization says that although garlic is "a healthy food with some antimicrobial properties", there is no evidence that eating garlic protects people from the coronavirus. This type of treatment is not harmful to health unless you trust it and ignore th...

Top 7 rivers where people can search gold

Top 7 rivers where people can search for gold  Most of the rivers of the world have gold deposits in their paths and contain dissolved gold particles in their waters. Due to geological changes many rivers still contain gold particles and large lumps in them. The race for gold search which began in the 19th century is now over. But there are still some places near rivers where ordinary people can find gold. Such rivers abound in the United States, and on some shores, ordinary people can try their luck for a golden treasure for a small fee. Earlier, the largest gold bar in California was discovered by an ordinary person. Many of the world's rivers are still famous for gold. The list includes many American rivers. 1.Reed Gold Mine, Charlotte, USA The Reed Gold Mine is located in Cabaret County, Midland, North Carolina, and is the first documentary commercial gold mine in the United States. In 1799, Conrad Reid found a 17-pound yellow "rock" in Little Meadow Creek. For thre...